عورتو! تم تو نہیں نفس کی لذت کے لیے |
دہر میں آئی ہو انسان کی عظمت کے لیے |
تم نے اولاد کو، شوہر کو دیا عزم وکمال |
تم نے بچوں کو سنوارا ہے امامت کے لیے |
اپنی آغوش میں پالا ہےولی اور شہید |
قیمتی لعل نکھارے ہیں شہادت کے لیے |
مرد ہی پر تو نہیں فرض ہے زہد و تقوی' |
تم بھی تو آئی ہو مولی' کی عبادت کے لیے |
کیوں حیا چھوڑ کے بے پروہ ہوئی جاتی ہو |
کچھ نہیں پاس رہا دین کی غیرت کے لیے |
روبرو حشر میں معبود کے جب جاؤگی |
لے کے کیا جاؤگی تم اپنی برات کے لیے |
دیکھو عصمت کا دوپٹہ نہ سرکنے پائے |
ہر نظر گھات میں بیٹھی یے شرارت کے لیے |
دیکھ کے تم کو نہ ہنس دیں کہیں دنیا والے |
ہر نظر نیچی ذرا حسن شرافت کے لیے |
کاش تم رابعہ بصری کا چلن اپنا لو |
خود چلا آئے کھنچا کعبہ زیارت کے لیے |
وہ بھی اسلام کی بیٹی تھی جو پہلی شب میں |
کردیا دلہا جدا دین کی نصرت کے لیے |
دامن دختر سرکار نہ چھٹنے پائے |
عمر بھر جس نے دعا مانگی ہے امت کے لیے |
خانہ داری بھی سنبھالو تو مسلماں بن کر |
رحمت حق بھی سمٹ آئے گی برکت کے لیے |
اپنی رگ رگ میں بھرو عشق شہ کون ومکاں |
ایک بیکل کی طرح نکھرو تو حضرت کے لیے |
شاعر: بیکل اتساہی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں