| روگ ایسا لگا گئی مرغی |
| مر کے سب کو رلا گئی مرغی |
| دس طریقوں سے پیش دستر پر |
| دعوتوں میں تھی چھا گئی مرغی |
| پہلے مرغی تھی جان سے پیاری |
| جان پہ اب تو آگئی مرغی |
| عیش کرتے تھے جو تجارت پر |
| سو کے اس کو سلا گئی مرغی |
| سوتے رہتے تھے اے سی کمروں میں |
| افسروں کو جگا گئی مرغی |
| کاٹتے تھے بغیر پانی کے |
| گلے ان کے سکھا گئی مرغی |
| بکریاں بھی بہت پریشان ہیں |
| باری اب ان کی لا گئی مرغی |
| لذتیں اعتدال میں رکھنا |
| درس ایسا سکھا گئی مرغی |
| مرغ کی بانگ پر کوئی جاگا |
| ٹانگ سب کو کھلا گئی مرغی |
| موزوں اشعار کرنے محور کو |
| ایک موضوع بتا گئی مرغی |
شاعر: یاور علی محور

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں