کسی چیز کو سیکھنے کے دوران قدیم معلومات سے جدید معلومات کا جوڑنا ایک فطری بات ہے۔
سیکھنے کے دوران ہم انجانے طور پر اس طرح کے تلازمات قائم کرتے رہتے ہیں۔
مثلاَ :
وطن کے لفظ کے ساتھ ہی ہمیں اپنے اپنے وطن کا نام یاد آتا ہے۔
کرکٹ کا لفظ سنتے ہی کرکٹ کے اپنے محبوب کھلاڑی کا نام ذہن میں آنا فطری بات ہے۔
"نشیمن" پر کسی شعر کے سنتے ہی دوسرا شعر "نشیمن" کا یاد آ ہی جاتا ہے۔
کسی نظم کا پہلا مصرعہ پڑھتے ہی اس نظم کا دوسرا مصرعہ ذہن میں آتا ہے کیونکہ پہلے مصرعے کے آخری لفظ سے دوسرے مصرعے کے پہلے لفظ میں ایک تعلق اور جوڑ ہمارے ذہن میں جمع ہوا ہوتا ہے۔
پوری نظم کے مصرعوں میں ایک مصرعہ کے اخیر اور دوسرے کے شروع میں ایسے تلازمات قائم ہو جاتے ہیں۔ جب یہ تلازمات ٹوٹتے ہیں تو ہم نظم کو بھولنے لگتے ہیں۔
اعادے (repetition) کی کثرت ، ان تلازمات کے نقوش کو قوی تر بناتی ہے۔
ہم زندگی گزارنے میں سہولت کی خاطر مصنوی تلازمات بنا اور اختیار کر سکتے ہیں۔ مصنوی تلازمات ان تلازمات کو کہتے ہیں جو پہلے سے پائے نہیں جاتے بلکہ پیش آنے والی باتوں میں غور و تدبر سے انہیں قائم کرنا پڑتا ہے۔
اس کی ایک آسان سی مثال اپنی طالب علمی کے زمانے سے پیش کرتی ہوں۔
انگریزی کے دو الفاظ ہیں :
WEEK اور WEAK
پڑھتے وقت میرے لئے یہ فرق کرنا مشکل تھا کہ کون سا لفظ کمزور کے لئے ہے اور کون سا ہفتہ کے لئے؟ کیونکہ یہ دو الفاظ ہم آواز ہیں۔
ہماری کلاس ٹیچر نے ان الفاظ کو یاد رکھنے کا ایک دلچسپ طریقہ بتایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہفتہ میں ایک سے زائد دن ہوتے ہیں اور اس کے لفظ WEEK میں ایک سے زائد E ہوتے ہیں۔
اس "تلازمہ" کو سمجھ لینے کے بعد مذکورہ دشواری باقی نہیں رہی !!
اسی خطوط پر جدید علم کو قدیم علم سے جوڑنے کی اگر ہم مشق کرتے جائیں تو قدم قدم پر بیشمار تلازمات ذہن میں قائم کئے جا سکتے ہیں۔ اس طرح قدیم معلومات گویا کھونٹیاں ہیں جن سے جدید معلومات کو لٹکایا جاتا ہے۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
Author Details
عندلیب
حیدرآباد ، انڈیا سے ۔۔۔ میرا مطالعہ ، میرے خیالات ۔۔۔
حیدرآباد ، انڈیا سے ۔۔۔ میرا مطالعہ ، میرے خیالات ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں