"اب آپ ٹماٹر کھانا بند کردیجئے" ۔ بیگم نے مجھ سے کہا وہ سبزی لانے بازار گئی تھیں اور واپس آکر یہ مشورہ دے ڈالا ۔
اپنی مرضی کے خلاف بیگم کا یہ مشورہ مجھے پسند نہیں آیا ۔ " میں ٹماٹر خوری " کا جواز تلاش کرنے لگا تھا کہ بیگم نے میرے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھ کر رعایت کردی " اگر بند نہیں کر سکتے تو کم ضرور کردیجئے " ۔
" کیوں" میں نے سوال کیا۔
" ٹماٹر مہنگے ہو گئے ہیں ۔ٹماٹر جو کبھی سستے دام ملا کرتے تھے ، اب پھلوں کے بھاؤ مل رہے ہیں ۔ ٹماٹر کے دام سیب سے زیادہ ہیں ۔ اگر یہی حال رہا تو تول کے بجائے عدد کے حساب سے ملا کریں گے! " بیگم نے وجہ بتائی ۔
" مجھے خوشی ہے کہ ٹماٹر نے اپنی اہمیت منوالی ہے ۔ ٹماٹر کو میوے کے دام بکنا ہی چاہیئے تھا"۔ میں نے ٹماٹر سے اپنی اٹوٹ چاہت کا اظہار کیا۔
" کیا مطلب !" بیگم نے حیرت سے مجھے گھورا ۔
" مطلب یہ کہ بنیادی طور پر ٹماٹر سبزی نہیں میوہ ہے ،اسے میوہ کی طرح ہی فروخت ہونا چاہیئے ۔" میں نے وضاحت کی ۔
" میں مہنگائی کا رونا رو رہی ہوں اور آپ ٹماٹر سبزی ہے یا پھل ہونے کا بکھیڑا لے کر بیٹھ گئے ۔
"مہنگائی اور میری باتوں سے پریشان ہوتے ہوئے بیگم بولیں ۔ " مہنگائی کی طرح آپ بھی میری سمجھ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں " اور اپنی خریداری سمیٹ کر کچن میں چلی گئیں ۔
ٹماتر پھل ہے یا ترکاری ۔۔؟ یہ بہت قدیم سوال ہے ۔ اس سوال نے کئی طالب علموں کو پریشان کیا ہے اور آج بھی کر رہا ہے ۔ سائنس کہتی ہے کہ اپنی جبلت میں ٹماٹر میوہ ہے ۔ میوہ کی طرح پھلتا پھولتا ہے ۔ اس میں بیج پائے جاتے ہیں لیکن جب یہی پھل باورچی خانہ میں جاتا ہے اور وہاں سے کھانے کی میز پر آتا ہے تو ترکاری بن جاتا ہے ۔ باورچی ٹماٹر کو پھل ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے ساتھ سبزی والا رویہ اپناتے ہیں ۔ پھلوں کو ملنے والی عزت سے بے چارہ محروم ہو جاتا ہے اور باورچی اسے کاٹ کاٹ کر ہانڈیوں میں ڈال کر بھونتے اور پکاتے ہیں ۔
ٹماٹر سبزی ہے یا میوہ ، مرغی پہلے آیا یا انڈا جیسا سوال ہے جو صدیوں سے زیر بحث ہے اور جس کا ابھی تک تشفی بخش جوا ب اس لئے دریافت نہیں ہوسکا کہ دونوں باتیں صحیح ہیں ۔ اس سوال پر امریکہ کی عدالتوں میں بحث بھی ہوئی اور آخر 1893ء میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے ٹیکس کی وصولی کے معاملے میں ٹما ٹر کو قانونا سبزی قرار دیا ۔ آج بھی امریکہ میں ٹماٹر کی حیثیت سبزی ہی کی ہے لیکن اس فیصلے سے ٹماٹر کی سائنسی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا ۔ نباتاتی نقطہ نظر سے ٹماٹر ہر حال میں میوہ ہے اور مستقبل میں بھی وہ میوہ ہی رہے گا۔
مجھے ٹماٹر بہت پسند ہے ۔ میری پسند کی یوں تو کئی وجوہات ہیں لیکن اہم وجہ سائنس کے استاد کی چھڑی کی وہ مار ہے جو میں نے ٹماٹر کو ترکاری بتانے پر کھائی تھی ۔ اس وقت میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ ٹماٹر سے اپنی بے عزتی کا بدلہ اسے کھا کر لوں گا ۔ جب بھی مجھے ٹماٹر ملتا میں اسے کچا چبا ڈالتا ۔ وقت کے ساتھ غیر محسوس طریقے سے ٹما ٹر سے میرا یہ انتقام محبت میں تبدیل ہوتا گیا اور میں اب بدلہ کی بھاؤنا میں نہیں رغبت سے ٹما ٹر کھاتا ہوں ۔ ہر دن اور دن میں تین مرتبہ کسی نہ کسی شکل میں ٹماٹر میرے سامنے ہوتا ہے اور میں ٹماٹر اڑانے میں کوئی تکلف نہیں کرتا۔ ٹماٹر کی یہ خوبی بھی ہے کہ اس کو کھانے کے کئی طریقے ہیں ۔
مجھے ٹماٹر اس لئے بھی پسند ہے کہ اسے پھل کی طرح کھایا اور ترکاری کا طرح استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
آپ پھلوں کے رسیا ہیں تو آم یا سیب کے رس کی طرح " ٹماٹرجوس" پئیں اور اگر ترکاریوں کو صحت کا ضامن سمجھتے ہیں تو" ٹماٹرسوپ " سے شوق فرمائیں ۔اگر کوئی قدرتی غذاؤں میں اعتقاد رکھتا ہو تو وہ ٹماٹر کو کچا تناول کر سکتا ہے اور اگر کوئی اس بات پر ایمان لے آیا ہے کہ پکانے سے غذائی خوبیاں نکھرتی ہیں ، ذائقہ بہتر ہوتا ہے اور مضر اثرات سے چھٹکارا ملتا ہے تو وہ ٹماٹر کا سالن بنا کر کھا سکتا ہے ۔ چٹور زبان والوں کو بھی ٹماٹر مایوس نہیں کرتا ، ان کے لئے وہ چٹنی ، ساس اورکیچ اپ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ ایسی خوبی کسی دوسرے میوے یا ترکاری میں نہیں پائی جاتی ! سیب کو کچا کھا سکتے ہیں ، اس کا جوس پی سکتے ہیں لیکن اس کا سالن نہیں بنا سکتے۔ اسی طرح بھنڈی کا سالن بنایا جا سکتا ہے لیکن اسے کچا نہیں کھایا جا سکتا۔
ٹماٹر مجھے اس لئے بھی پسند ہیں کہ وہ صحت کے لئے بہت مفید ہے ۔ایک مرتبہ میں نے ڈاکٹر سے ٹما ٹر کو رغبت سے کھانے کے متعلق دریافت کیا تھا ۔ ڈاکٹر نے فرمایا: " شوق سے ٹماٹر کھائیے ۔ ٹماٹر میں وٹامن اے ، سی ،کے اور معدنیات ہوتے ہیں ۔ ان کے ساتھ رنگین مادے بھی پائے جاتے ہیں جو ہماری صحت کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اور یہ مادے بلخصوص کینسر اور دل کے امراض کے خلاف کارگرہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر کی صحت بخش اور امید افزا باتیں سن کر اس دن میں نے دو، چارٹماٹر زیادہ کھائے تھے ۔ اس معاملے میں سیب غیر ضروری شہرت پاگیا ۔ سیب سے زیادہ فائدہ مجھے ٹماٹر میں نظر آتا ہے ۔ اسی لئے میں ٹماٹر کو غریب آدمی کا سیب قرار دیتا اورنعرہ لگاتا ہوں کہ ہر دن ٹماٹر کھائیں اور ڈاکٹر کو دور بھگائیں ۔ ان ٹماٹر مہنگے ہونے لگے ہیں
تو سمجھ میں نہیں آتا کہ سستے داموں میں صحت کی حفاظت کیسے کی جائے !
مجھے ٹماٹر اس کی رنگ کی وجہ سے بھی پسند ہے ۔ کھانے سے پہلے میں ٹماتر کو ہاتھ میں لئے آگے پیچھے گھما کر دیکھتے ہوئے مسحور ہو جاتا ہوں ۔ دیکھنے میں طبعت سیر ہونے کے بعد میں ٹماٹر کو اپنے جسم کا حصہ بناتا ہوں ۔ اکثر مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنا شاندار رنگ اور خوبصورت جسامت رکھنے کے باوجود شاعروں اور ادیبوں نے ٹماٹر کو تشبیہ اور استعاروں میں استعمال نہیں کیا ۔ شاید ترکاری ہونے کی تہمت اٹھانے کا یہ خمیازہ ہے ۔ اگر ٹماٹر سیب کی طرح صرف پھل ہوتا تو سرخ دمکتے گالوں کو ٹماٹر سے تشبیہ دی جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹماٹر کا چاہنے والا ایک میں ہی نہیں آپ بھی ہونگے بلکہ ہزاروں ، لاکھوں لوگ ٹماٹر کے شیدائی اور سودائی ہیں ۔ اسپین کے شہر Burial میں ہر سال ٹماٹر کے ہزاروں عاشق جمع ہوتے اور ایک دوسرے پر ٹماٹر پھنکتے ہیں ۔Tomatina " La نامی اس تہوار میں ہزاروں کلو ٹماٹر پھینکے جاتے ہیں ۔ لوگ اور سڑکیں لال لال ہو جاتیں ہیں ۔ آپس میں اور ٹماٹر سے دل بستگی کے اظہار کا یہ انوکھا طریقہ ہے ۔ ٹماٹر پھینکنے کے اس جشن سے یاد آیا کہ ناراضی اور غم وغصہ کے اظہارکے لئے بھی ٹماٹر پھینکے جاتے ہیں ۔ محفلوں اور جلسوں میں لوگ بڑے اہتمام سے ٹماٹر لے آتے اور نشانے پر پھینک کر اپنے جزبات کا اظہار کرتے ہیں ۔ ٹماٹر پھینکتے وقت مجھے یقین ہے کہ کوئی یہ نہیں سونچتا کہ ٹماٹر سبزی ہے یا میوہ !
مضمون نگار : عابد معز
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
Author Details
عندلیب
حیدرآباد ، انڈیا سے ۔۔۔ میرا مطالعہ ، میرے خیالات ۔۔۔
حیدرآباد ، انڈیا سے ۔۔۔ میرا مطالعہ ، میرے خیالات ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں