سید اکبر حسین کی پیدائش 1846ء میں الہ آباد کے پاس جمنا پار کے "بارہ" نامی گاؤں میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے والد سید تفضل حسین سے حاصل کی۔ ان لوگوں کا خاندان "بارہ" کے علاقے میں مدت سے آباد تھا۔ قدامت پسند ، متوسط حال اور عزت نفس کے پاسدار اس خاندان نے قدیم کلاسیکی تعلیم کی روایتوں کو برقرار رکھا تھا، لیکن ان کی مالی حالت بہت اچھی نہ تھی۔
اکبر کو مجبوراً 1863ء میں جمنا پر زیر تعمیر پل کے ٹھیکے دار کے یہاں کلرک کی ملازمت کرنا پڑی۔ اس درمیان انہوں نے اپنی کوششوں سے انگریزی کی اچھی استعداد بہم پہنچا لی اور 1867ء میں عدالت ضلع کے وکلا کا امتحان بآسانی پاس کر لیا۔
اکبر کو 1869ء میں نائب تحصیل دار مقرر کیا گیا ، لیکن جلد ہی انہوں نے وہ نوکری ترک کر دی اور ہائی کورٹ کے وکلا کا امتحان پاس کر کے الہ آباد ہائی کورٹ میں وکالت کرنے لگے۔
چند برس کی وکالت کے بعد 1880ء میں وہ منصف کے عہدے پر فائز کئے گئے۔ اس کے بعد وہ سرکاری ملازمت اور عہدوں میں مسلسل ترقی کرتے ہوئے 1894ء میں سشن ججی پر تعینات ہوئے۔
جلد ہی وہ بنارس میں اور پھر دوسرے اضلاع میں ڈسٹرکٹ جج کے عہدے پر متمکن ہوئے۔ حکومت انگلشیہ نے انہیں 1898ء میں خطاب "خان بہادر" سے سرفراز کیا۔ 1903ء میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد وہ کوتوالی الہ آباد کے پیچھے اپنی تعمیر کردہ وسیع کوٹھی "عشرت منزل" میں آرام اور نیم خانہ نشینی کی زندگی گزارتے رہے ، اگرچہ اس زمانے میں انھیں آنکھوں کی تکلیف کے علاوہ اور بھی عارضے لاحق ہوئے لیکن بحیثیت مجموعی ان کی وظیفہ یابی کے دن اچھے گزرے۔
زندگی کے آخری برسوں میں مہاتما گاندھی ، ملک کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے مہاتما گاندھی کی جدوجہد سے اکبر کا شغف پہلے سے بھی فزوں ہو گیا۔ انہوں نے ان موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار ایک طویل نظم (یا مختصر نظموں کے طویل سلسلے) "گاندھی نامہ" میں کیا۔
اکبر الہ آبادی سن 1921ء میں وفات پا گئے۔
اس وقت وہ ہندوستان کے ادبی منظرنامے پر ایک نہایت قوت مند اور سیاسی سماجی اعتبار سے وابستہ شاعر کی حیثیت سے اپنی شہرت کے بامِ عروج پر تھے۔
انیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں اور بیسویں صدی کی اولین دو دہائیوں میں ان کے دوستوں اور مداحوں کی فہرست مرتب کی جائے تو وہ اُس وقت کا Who's who in India معلوم ہوتی ہے !
اکبر کی وفات کے بعد بھی ان کا کلام ایک دو دہائیوں تک بہت مقبول رہا۔ ان کی کلیات تین جلدوں میں 1909ء سے 1921ء کے درمیان چھپی تھی۔
پہلی جلد تو 1936ء تک گیارہ بار چھپ چکی تھی۔
کلیاتِ اکبر کی چوتھی جلد 1948ء میں کراچی سے چھپی تھی لیکن یہ جلد ہندوستان میں بہت کم لوگوں تک پہنچی۔
اردو کے سب سے بڑے طنزنگار شاعر کی حیثیت سے اکبر الہ آبادی کی شہرت کو کوئی بٹہ تو نہیں لگا ہے لیکن ان کے پڑھنے والوں کی تعداد میں ضرور کمی ہو گئی ہے۔
اردو کے نقادوں نے کم و بیش یک زبان ہو کر ان کی نکتہ چینی کی ہے کیونکہ اکبر انھیں ترقی ، سائنس اور روشن خیال طرزِ فکر و حیات کے دشمن نظر آتے ہیں۔
نمونہ کلام :
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر الہ آبادی پر وکی پیڈیا ربط
اقتباسات :
شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کے مضمون "اکبر الہ آبادی : نئی تہذیبی سیاست اور بدلتے ہوئے اقدار" سے۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
Author Details
عندلیب
حیدرآباد ، انڈیا سے ۔۔۔ میرا مطالعہ ، میرے خیالات ۔۔۔
حیدرآباد ، انڈیا سے ۔۔۔ میرا مطالعہ ، میرے خیالات ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں