بچت اور کفایت شعاری : تربیت کا اہم پہلو - AndleebIndia.blogspot.com from Hyderabad India | Health, Beauty, Food recipe, Urdu Literature

2010-02-22

بچت اور کفایت شعاری : تربیت کا اہم پہلو


ہمارے ہاں لڑکیوں کی تربیت کھانا پکانے ،سلائی کڑھائی اور گھریلو کام کاج تک محدود ہوتی ہے انھیں خرچ کومنظّم انداز سے چلانے کا سبق بھی دینا چاہئے۔
بچوں کی تربیت ماں کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے ۔ لڑکیوں کی تربیت میں ایک پہلو ایسا ہے جس پر ماں کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ پہلو پیسے کا استعمال بچت اور اخرجات میں کفایت شعاری ۔

گھر کو چلانے میں عمومًا ان الفاظ کا زیادہ استعمال خاتون خانہ سے منسلک کیا جاتا ہے ۔ اس لئے ماں کو بچیوں کی تربیت میں اس پہلو کو ضرور مد نظررکھنا چاہئے ۔ مشرقی اور مغربی طرزمعاشرت اگر چہ الگ الگ ہے لیکن وہاں بھی یہ پہلو ضرور دیکھا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کی تربیت کھانا پکانے ،سلائی کڑھائی اور گھریلو کام کاج تک محدود ہوتی ہے ۔ اگر گھریلو اخرجات میں کفایت شعاری کا پہلو نظرانداز کر دیا جاتا ہے حالانکہ لڑکی کوخرچ کو منظّم اندازسے چلانے کا سبق اگر شروع سے ہی پڑھا دیا جائے تو آئندہ گھر داری آسان ہو سکتی ہے ۔
بڑھتی ہوئی ضروریات اور مہنگائی کے باعث ایشیائی ممالک میں بھی لڑکیوں میں ملازمت کا رجحان کافی زیادہ ہوچکا ہے تا ہم اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑکیاں اپنی ماہانہ آمدنی کا بڑا حصہ ملبوسات، جوتے اور دیگر اشیاء پر صرف کر ڈالتی ہیں اور پھر مہینے کے آخر میں والدین سے مذید جیب خرچ کا مطالبہ کرتی ہیں ۔ ان کی یہ عادت عملی زندگی میں آنے کے بعد بھی قائم رہتی ہے ۔
بیشترمائیں مختلف محافل میں اپنی بیٹیوں کی اس فضول خرچی کا ذکر بڑے تکبرانہ انداز میں کرتی نظر آتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ہماری بیٹیاں فلاں فلاں برانڈ کے علاوہ تو کچھ خریدتی ہی نہیں ۔ اس انداز سے وہ دوسروں کو متاثر کرنا چاہتی ہیں کہ گویا ان کا تعلق کسی بہت بڑےاور دولتمند گھرانے سے ہے حالانکہ یہ کوئی بڑائی نہیں بلکہ بگڑی ہوئی عادت ہے جو مستقبل میں مسائل کا موجب بن سکتی ہے ۔

اگر آپ اپنی بچیوں میں کفایت شعاری اور بچت کی عادت پیدا کرنا چاہتی ہیں تو پہلے خود اس کا عملی نمونہ بنیں ۔
زندگی کے ہر معاملےمیں فضول خرچی اور اس پر تکبر نا پسندیدہ افعال ہیں ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں میانہ روی بہت سی الجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے ۔
آج کل ہرخاتون مہنگائی کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں ۔
ذرا غور کیجئے تو کچھ قصورہمارے معاشرتی رجحان کا بھی ہے جسے ہم نے ایک دوسرے کی تقلید میں اپنا لیا ہے ۔ اکثر خواتین اس کوشش میں ہوتی ہیں کہ وہ گھر اور طرز زندگی میں اپنے حلقئہ احباب میں سب سے ممتاز ہوں ۔ اس منفی خواہش نے گرانی کا احساس زیادہ کر دیا ہے ۔ دکھاوے کے شوق میں بجٹ کا بیشترحصہ خرچ کر دیا جاتا ہے ۔ تبدیلی انسانی فطرت ہے ۔ خواتین چاہیں تو گھر میں موجود اشیاء کو بھی ذرا سے ردوبدل کے ذریعے خوبصورت نئی شکل دے سکتی ہیں ۔

ماں کو چاہئے کہ خریداری کے دوران بیٹیوں کو ساتھ رکھے اور ان سے رائے طلب کرے ۔
اس طرح ابتدائی عمر سے ہی ان میں بھاؤ تاؤ اور چیزوں کے انتخاب کا حسن آجائیگا 11 سے 15 سال کی لڑکیوں کو آمدن و اخراجات کو متوازن رکھنے کی تربیت دینا شروع کر دینا چاہئے۔
انھیں جیب خرچ کا استعمال اور بچت کا طریقہ بھی بتانا چاہئے ۔ ماہانہ آمدنی اور خرچ کے ساتھ ایک کالم بچت کا بھی ضرور بنائیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثرخواتین پس اندازکی ہوئی اس رقم کو کسی نہ کسی مد میں خرچ کر ڈالتی ہیں ۔ ایسا کرنے سے گریز کریں اور اس بچت کو جمع کریں ۔ ایسا ہی سبق اپنی بیٹیوں کو بھی دیں ۔

***
بشکریہ : تسنیم امجد
روزنامہ اردو نیوز ، سعودی عرب۔

4 تبصرے:

  1. بلاگ کی تھیم خوبصورت ہے، دیکھ کر اچھا لگا۔
    آپ کی توجہ اردو بلاگز ایگریگیٹر کی طرف دلانا چاہوں گا، جہاں آپ سبھی بلاگران کی تازہ ترین تحاریر پڑھ سکیں گی۔

    http://urdublogs.co.cc

    شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. acha likhti hain ji aap

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت اچھی باتیں شیئر کی ہیں جس کا شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں